Menu Close

دِینِ مسیحیت کا جامع خلاصہ / A Compendium of the Christian Religion

        

ترجمہ و تالیف: ارسلان الحق

تعارف

دین مسیحیت کا جامع خلاصہ ایک نہایت قدیم دستاویز ہے جو اصلاحی کلیسیاؤں میں چار سو سال سے زائد عرصے سے زیر استعمال رہی ہے۔ اِسے سب سے پہلے ہیرمانس فاکیلیئس نامی مسیحی پاسبان نے 1599ء میں تیار کیا۔اُس وقت وہ نیدرلینڈز کے شہر مڈل برگ میں اصلاحی کلیسیا کے پاسبان کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے تھے۔اپنی کلیسیا کے بزرگوں کی خواہش پر، فاکیلیئس نے اسے ہائیڈل برگ کیٹی کزم کے مختصر نسخہ کے طور پر تیار کیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ہائیڈل برگ کیٹی کزم میں پیش کردہ مسیحی تعلیمات کو مختصر، جامع اور آسان انداز میں پیش کیا جائے تاکہ کلیسیائی نوجوان اسے باآسانی یاد کر سکیں۔

اس دستاویز کو ڈچ اصلاحی کلیسیاؤں میں کوئی باضابطہ حیثیت حاصل نہ تھی  یہاں تک کہ 1618-1619ء کی سنڈ آف ڈورڈریکٹ نے اس کی تعلیمی اہمیت کو دیکھتے ہوئے کلیسیاؤں میں اس کے استعمال کی سفارش کی۔ اُس وقت سے یہ دستاویز  نیدرلینڈز کی کلیسیاؤں اور جنوبی افریقہ کی ڈچ کلیسیاؤں میں استعمال ہوتی رہی ہے۔ امریکہ میں بھی اس کا استعمال ریفارمڈ چرچ ان امریکہ کے ابتدائی دور میں کیا گیا۔اِس کا موجودہ انگریزی ترجمہ  1767ء میں اسکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے ریفارمڈ چرچ اِن امریکہ کے پادری آرچیبالڈ لیڈلی نے کیا جبکہ اس کا اُردو ترجمہ ریفارمڈ چرچ آف پاکستان کے پادری ارسلان الحق نے کیا ہے۔

سوال نمبر ١۔ اس زندگی میں اطمینان اور تسلی کے لئے خوشی سے جان دینے کے لئےکتنی باتوں کو جاننا ضروری ہے؟

جواب۔ تین باتوں کو۔ پہلی یہ کہ میرا گناہ کتنا بڑا ہے اور اُس کی وجہ سےکن مصائب کا مجھے سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دوسری یہ کہ میں کس طرح اِس گناہ کے بوجھ اور اِن مصیبتوں سے بچایا گیا ہوں۔ تیسری یہ کہ اس بڑی نجات کے لئے مجھے کس طرح خدا کا شکر گزار رہنا چاہیے۔

حصہ اوّل۔ انسان کی مصیبت

سوال نمبر٢۔ آپ اپنی گناہ آلودہ حالت اور اُس کے دکھ یا مصیبت کو کس طرح جانتے ہیں؟

جواب: خدا کی شریعت کے ذریعہ سے۔

سوال نمبر ٣ ۔خدا کی شریعت کیا ہے؟

جواب۔ خدا نے یہ سب باتیں فرمائیں کہ خداوند تیرا خدا جو تجھے ملک مصر اور غلامی کے گھر سے نکال لایا میں ہوں (خروج 20، استثنا6:5-7)۔

پہلا حکم۔میرے حضور تو غیرمعبودوں کو نہ ماننا۔

دوسرا حکم۔ تو اپنے لئے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا۔ نہ کسی چیز کی صورت بنانا جو اُوپرآسمان میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے ۔تواُن کے آگے سجدہ نہ کرنا اور نہ اُن کی عبادت کرناکیونکہ میں خداوند تیرا خدا غیور خدا ہوں اور جو مجھ سے عداوت رکھتے ہیں اُن کی اولاد کو تیسری اور چوتھی پشت تک باپ دادا کی بدکاری کی سزا دیتاہوں۔ اور ہزاروں پر جو مجھ سے محبت رکھتے اور میرے حکموں کو مانتے ہیں رحم کرتا ہوں۔

تیسرا حکم۔تو خداوند اپنے خدا کا نام بے فائدہ نہ لینا کیونکہ جو اُس کا نام بے فائدہ لیتا ہے خداوند اُسے بے گناہ نہ ٹھہرائے گا۔

چوتھا حکم۔یاد کرکے تو سبت کا دن پاک ماننا۔ چھ دن تک تو محنت کرکے اپنا سارا کام کاج کرنا ۔لیکن ساتواںدن خداوند تیرے خدا کا سبت ہےاُس میں نہ تو کوئی کام کرے نہ تیرا بیٹا نہ تیری بیٹی نہ تیرا غلام نہ تیری لونڈی نہ تیرا چوپایہ نہ کوئی مسافر جو تیرے ہاں تیرے پھاٹکوں کے اندر ہو۔ کیونکہ خداوند نے چھ دن میں آسمان اور زمین اور سمندر اور جو کچھ اُن میں ہے وہ سب بنایا اور ساتویں دن آرام کیا۔ اِس لئے خداوند نے سبت کے دن کو برکت دی اور اُسے مقدس ٹھہرایا۔

پانچواں حکم۔ تواپنے باپ اور اپنی ماں کی عزت کرنا تاکہ تیری عمراُس ملک میں جو خداوند تیرا خدا تجھے دیتا ہے دراز ہو۔

چھٹا حکم۔توخون نہ کرنا۔

ساتواں حکم۔ تو زِنا نہ کرنا۔

آٹھواں حکم۔ تو چوری نہ کرنا۔

نواں حکم۔ تواپنے پڑوسی کے خلاف جھوٹی گواہی نہ دینا۔

دسواں حکم۔تو اپنے پڑوسی کے گھر کا لالچ نہ کرنا۔ تواپنے پڑوسی کی بیوی کا لالچ نہ کرنا اور نہ اُس کے غلام اور اُس کی لونڈی اور اُس کے بیل اوراُس کے گدھے کا اور نہ اپنے پڑوسی کی کسی اور چیز کا لالچ کرنا۔

سوال٤۔ یہ احکام کس طرح تقسیم کئے گئے ہیں؟

جواب۔ خدا نے یہ احکام دوتختیوں پر لکھ کردئے۔

سوال نمبر ٥۔ پہلی تختی کے چار احکام میں خدا ہم سے کیا چاہتا ہے، اس کا خلاصہ کیا ہے؟

جواب۔ کہ خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اوراپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ۔ بڑا اور پہلا حکم یہی ہے۔

سوال نمبر ٦۔ دوسری تختی کے چھ احکام میں خدا ہمیں کیا حکم دیتا ہے، اس کا مجموعہ کیا ہے؟

جواب۔ کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔ اِن ہی دوحکموں پر تمام توریت(شریعت) اور انبیاء کے صحیفوں کا مدار ہے۔

سوال نمبر٧۔ کیا آپ اِ ن سب پر مکمل طور پر عمل کرسکتے ہیں؟

جواب۔ نہیں، میں فطری طور (عقلاً، قول وفعل میں) پر خدا اور اپنے پڑوسی سے نفرت کرنے کی طرف مائل ہوں۔

سوال نمبر ٨۔ کیا خدا نے انسان کو اِس قدر شریر اور سرکش بنایا؟

جواب۔ نہیں۔ خدانے انسان کو اچھا اور اپنی شکل وصورت پر پیدا کیا یعنی راست بازی اور حقیقی پاکیزگی میں۔

سوال نمبر ٩۔ سوال نمبر7۔ پھر انسان کی یہ بگڑی ہوئی فطرت کہاں سے آئی ہے؟

جواب۔ ہمارےپہلے ماں باپ کے گناہ میں گرنے اور نافرمانی کرنے سے۔آدم اور حوا نے باغ عدن یعنی فردوس میں گناہ کیا۔ اِس لئے ہماری فطرت اِس قدر بگڑ گئی کہ ہم سب گناہ کی حالت میں پیدا ہوئے ہیں۔

سوال نمبر ١٠۔ آدم اور حوا نے کس بات میں نافرمان کی؟

جواب۔ اُنہوں نے اُس درخت کا پھل کھایا جس سے خدا نے اُنہیں منع کیا تھا۔

سوال نمبر ١١۔ کیا آدم کی نافرمانی کا ہم پر کوئی اثر ہے؟

جواب۔ یقینی طور پر۔ آدم ہمارا جد امجد ہے اور اُسی کی وجہ سے ہم سب نافرمان ہیں۔

سوال نمبر ١٢۔ کیا ہم اِس قدر بگڑ گئے ہیں کہ کوئی نیک کام نہیں کرسکتے اور ہر قسم کی بدی کی طرف مائل رہتے ہیں؟

جواب۔ جی ہاں۔ جب تک خدا کے روح سے نئے سرے سے پیدا نہ ہوں۔

سوال نمبر ١٣۔ کیا خدا اِس برگشتگی اور نافرمانی کی سزا نہ دے گا؟

جواب۔ یقیناً نہیں، کسی وجہ سے وہ اِسے بے سزا نہ چھوڑے گا۔ وہ ہمارے نسلی اور عملی گناہ سے سخت ناراض (ناخوش) ہے اور وہ ابدی عدالت کے وقت ضرور اِس کی سزا دے گا۔ جیسا کہ اُس نے اپنے کلام میں فرمایا ہے۔ملعون ہے ہر ایک شخص جو شریعت کی کتاب کی باتوں پر عمل کرنے کے لئے قائم نہ رہے۔

دوسرا حصہ۔ انسان کی مخلصی کے بارے میں

سوال نمبر ١٤۔ ہم کس طرح اِس سزا سے بچ سکتے ہیں اور خدا کی نظروں میں مقبول ٹھہرائے جاسکتے ہیں؟

جواب۔ ایسے درمیانی (کفارہ دینے والے) کے وسیلے سے جو واحد شخصیت میں حقیقی خدا اور حقیقی راست باز انسان ہے۔

سوال نمبر ١٥۔ لیکن اب وہ درمیانی کون ہے جو واحد شخصیت میں حقیقی خدا اور حقیقی راست باز انسان ہے؟

جواب۔ ہمارا خداوند یسوع مسیح جو واحد شخصیت میں حقیقی خدا اور حقیقی راست باز انسان ہے۔

سوال نمبر ١٦۔ کیا فرشتے ہمارے درمیانی نہیں بن سکتے؟

جواب۔ نہیں، نہ ہی وہ خدا ہیں اور نا ہی انسان۔

سوال نمبر ١٧۔ کیا مقدسین ہمارے درمیانی نہیں بن سکتے؟

جواب۔ نہیں۔ کیونکہ نسل آدم ہونے کے باعث بھی گناہ گار ہیں اور انہوں نے نجات صرف اسی یعنی یسوع مسیح کے وسیلہ سے حاصل کی ہے۔

سوال نمبر ١٨۔ کیا پھر مسیح کے وسیلے سے سب نجات کے وارث ہوتے ہیں جس طرح وہ آدم کے وسیلے ہلاکت کے فرزند بنتے ہیں؟

جواب۔نہیں، صرف وہ جو حقیقی ایمان کے وسیلہ سے اُس (یسوع مسیح) میں پیوند کئے جاتے ہیں۔ جیسا کہ کلام مقدس میں لکھا ہے، کیونکہ خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے (یوحنا 16:3

سوال نمبر ١٩۔ حقیقی ایمان کیا ہے؟

جواب۔ حقیقی ایمان سے مراد صرف اُن سچائیوں کا علم نہیں جو خدا نے اپنی انجیل میں ظاہر کی ہیں بلکہ اُس دلی اعتماد کے ساتھ بھی ہے کہ مسیح یسوع کی خاطر، خدا نے میرے سب گناہ معاف کر دئے ہیں۔

سوال نمبر ٢٠۔ وہ سب کچھ جس کا وعدہ انجیل میں ہم سے کیاگیا ہےہے ، خدا نے ہمیں کس بات پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے؟

جواب۔ اس کا خلاصہ عالم گیر (کاتھولک)مسیحی ایمان کے درج ذیل بارہ رکن ایمانی میں کیا گیا ہے۔

١. میں ایمان رکھتا ہوں خدا قادرِمطلق باپ پر جو آسمان اور زمین کا خالق ہے۔

٢۔ اور اُس کے اکلوتے بیٹے ہمارے خداوند یسوع مسیح پر

٣۔ جو روح القدس کی قدرت سے پیٹ میں پڑا، کنواری مریم سے پیدا ہوا۔

٤۔ اُس نے پینطس پیلاطس کی حکومت میں دکھ اُٹھایا۔ مصلوب ہوا، مرگیا اور دفن ہوا(عالم ارواح میں اُتر گیا)۔

٥۔ تیسرے دن مردوں میں سے جی اُٹھا۔

٦۔ آسمان پر چڑھ گیا اور خدا قادرِمطلق باپ کی دہنی طرف بیٹھا ہے۔

٧۔ جہاں سے وہ زندوں اور مردوں کی عدالت کرنے کو آئے گا۔

٨۔ میں ایمان رکھتا ہوں روح القدس پر،

٩۔ پاک عالم گیر (کاتھولک) کلیسیا پر، مقدسوں کی شراکت

١٠۔ گناہوں کی معافی،

١١۔ جسم کے جی اُٹھنے

١٢۔ اور ہمیشہ کی زندگی پر۔ آمین۔

سوال نمبر ٢١۔ جب آپ خدا باپ، بیٹے اور روح القدس پر ایمان کا اقرار کرتے ہیں تو کیا آپ کا مطلب تین خداؤں سے ہے؟

جواب۔ کسی صورت نہیں۔ صرف ایک ہی حقیقی خدا ہے۔

سوال نمبر ٢٢۔ جب کہ ایک الٰہی ہستی ہے پھر آپ تین یعنی باپ، بیٹے اور روح القدس کا کیوں ذکر کرتے ہیں؟

جواب۔ کیونکہ خدا نے اپنے کلام میں اپنے آپ کو ایسا ہی ظاہر کیا ہے کہ یہ تین اقانیم(اشخاص) ایک ہی حقیقی خدا ہے۔نیز ہم بھی باپ، بیٹے اور روح القدس کے نام پر بپتسمہ لیتے ہیں۔

سوال نمبر ٢٣۔ آپ کیا ایمان رکھتے ہیں جب کہتے ہیں کہ میں ایمان رکھتا ہوں خدا قادرِمطلق باپ پر جو آسمان اور زمین کا خالق ہے؟

جواب۔ہمارے خداوند یسوع مسیح کے ابدی باپ خدا نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ اُس میں ہے نیست سے ہست کیا اور جس پر حکومت کرتا ہے اور اُسے اپنی ابدی مشورت اور پروردگاری کے ذریعے اپنے بیٹے یسوع مسیح کی خاطر سنبھالتا ہے، میرا خدا اور باپ ہے۔

سوال نمبر ٢٤۔ آپ کیا ایمان رکھتے ہیں جب کہتے ہیں کہ میں ایمان رکھتا ہوں اُس کے اکلوتے بیٹے ہمارے خداوند یسوع مسیح پر؟

جوب۔ کہ یسوع مسیح اکیلا خدا کا ازلی اور حقیقی بیٹا ہے۔ باپ اور روح القدس کے ساتھ ایک ہی جوہر رکھتا ہے۔

سوال نمبر ٢٥۔ کیا آپ یہ بھی ایمان نہیں رکھتے کہ وہ مجسم بھی ہوا؟

جواب۔ کیوں نہیں۔ روح القدس کی قدرت سے پیٹ میں پڑا، کنواری مریم سے پیدا ہوا۔

سوال نمبر ٢٦۔ کیا الوہیت انسانیت میں تبدیل ہوگئی؟

جواب۔ نہیں، کیونکہ خدا لاتبدیل ہے۔

سوال نمبر ٢٧۔ پھر وہ کیسے مجسم ہوا؟

جواب۔ اُس کی الٰہی ذات انسانی ذات کو اختیار کرنے سے جو شخصی طور پر اُس کے ساتھ متحد ہے.

سوال نمبر ٢٨۔ کیا یہ انسانی فطرت آسمان سے حاصل کردہ تھی؟

جواب۔ نہیں۔ اپنی ذات الٰہی کے علاوہ حقیقی انسانی ذات کو روح القدس کی قدرت سے کنواری مریم سے حاصل کیا تاکہ سب باتوں میں اپنے بھائیوں کی مانند ہو سوائے گناہ کے (عبرانیوں 17:2 اور 15:4)۔

سوال نمبر ٢٩۔ خدا کا بیٹا یسوع نجات دہندہ کیوں کہلاتا ہے؟

جواب۔ کیونکہ وہ ہمیں ہمارے گناہوں سے نجات دیتا ہے۔

سوال نمبر ٣٠۔ کیا کوئی اور نجات نہیں دے سکتا؟

جواب۔ نہیں،اور کسی دوسرے کے وسیلہ سے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا جس کے وسیلہ سے ہم نجات پا سکیں (اعمال 12:4)۔

سوال نمبر ٣١۔ وہ مسیح کیوں کہلاتا ہے؟

جواب۔ کیونکہ وہ خدا باپ کی طرف سے مخصوص کیا گیا اور روح القدس کے وسیلہ سے مسح کیا گیا تاکہ ہمارا عظیم نبی، سردار کاہن اور ابدی بادشاہ ہو۔

سوال نمبر ٣٢۔ پھر مسیح نے ہماری نجات کے لئے کیا کیا؟

جواب۔ اُس نے ہماری جگہ ہماری خاطر دکھ اُٹھایا۔ مصلوب ہوا اور مرگیا۔ دفن ہوا( اور عالم ارواح میں اُتر گیا)۔ اُس نے موت کی مکمل تلخی کو برداشت کیا اور اِس طرح باپ کی فرمانبرداری کی تاکہ ہمیں گناہ کی وقتی اور ابدی سزا سے مخلصی عطا کرے۔

سوال نمبر ٣٣۔ اُس نے اپنی کس فطرت کے ساتھ دکھ اُٹھایا؟

جواب۔ اپنی انسانی فطرت کے ساتھ یعنی جسم اور جان میں۔

سوال نمبر ٣٤۔ پھر اُس کی الوہیت نے اِس میں کیا کردار ادا کیا؟

جواب۔ اُس کی الوہیت نے اپنی قدرت سے اُس کی انسانی فطرت کو اِس قدر تقویت بخشی کہ وہ ہمارے گناہ کے بوجھ اور اس کی سزا یعنی خدا کے غضب کو برداشت کرے اور ہمیں اُس سے مخلصی عطا کرے۔

سوال نمبر٣٥۔ کیا مسیح موت کے قبضہ میں رہا؟

جواب: نہیں، بلکہ وہ تیسرے دن مردوں میں سے جی اُٹھا تاکہ ہمیں راستباز ٹھہرائے (رومیوں 25:4)۔

سوال نمبر ٣٦۔ بلحاظِ انسانی فطرت، اب مسیح کہاں ہے؟

جواب: وہ آسمان پر چڑھ گیا ہے، اور خدا باپ کے دہنی طرف بیٹھا ہے یعنی سب مخلوقات سے بلند، اعلیٰ ترین جلال میں سرفراز ہے (افسیوں 20:1- 21)۔

سوال نمبر ٣٧۔ وہاں وہ اتنا سرفراز کیوں ہے؟

جواب۔ خاص طور پر اِس لئے تاکہ وہ وہاں سے اپنی کلیسیا پر حکومت کرے اور باپ کے سامنے ہمارے لئے شفاعت کرے۔

سوال نمبر ٣٨۔ کیا اب مسیح ہمارے ساتھ نہیں جیسے کہ اُس نے وعدہ کیا تھا (متی 20:28) کہ میں دنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں؟

جواب۔ اپنی الوہیت، جلال، فضل اور روح کے لحاظ سے وہ ہم سے کبھی جدا نہیں ہوتا لیکن اپنی انسانی فطرت کے اعتبار سے، وہ آسمان پر ہےجہاں سے وہ زندوں اور مردوں کی عدالت کرنے کو پھر آئے گا۔

سوال نمبر ٣٩۔ روح القدس کے بارے میں آپ کا کیا ایمان ہے؟

جواب۔ یہ کہ وہ خداباپ اور خدا بیٹے کے ساتھ ازلی خدا ہے اور یہ کہ مجھے خدا باپ کی طرف سے مسیح میں بخشا گیا ہے۔ جو مجھے نئی زندگی بخشتا ہے، کامل سچائی کی جانب میری رہنمائی کرتا ہے، مجھے تسلی دیتا ہےاور ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا۔

سوال نمبر ٤٠۔ عالم گیر (کاتھولک) کلیسیا کے بارے میں آپ کیا ایمان رکھتے ہیں؟

جواب۔ دنیا کے شروع سے لے کر اخیر تک خدا کے بیٹے نے اپنے روح اور کلام کے ذریعے کچھ لوگوں کو چُن لیا اور اپنے لئے یعنی اپنی کلیسیا ہونے کیلئے اُن کواکٹھا کرتا ہے۔ اور میرا ایمان ہے کہ میں اِس رفاقت میں اب بھی شریک ہوں اور ہمیشہ تک رہوں گا۔

سوال نمبر ٤١۔ وہ اپنی کلیسیا کو کہاں اکٹھا کرتا ہے؟

جواب۔ جہاں خدا کے کلام کی خالص منادی کی جاتی ہے اور پاک ساکرامنٹ (بپتسمہ اور عشائے ربانی) مسیح کے حکم کے مطابق ادا کئے جاتے ہیں۔

سوال ٤٢۔  مسیح اپنی کلیسیا کو کون سے فوائد بخشتا ہے؟

جواب۔ وہ انہیں گناہوں کی معافی، جسم کی قیامت اور ہمیشہ کی زندگی عطا کرتا ہے۔

سوال نمبر ٤٣۔ اس سب باتوں پر ایمان رکھنے سے آپ کو کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے؟

جواب۔ کہ میں یسوع مسیح (کے وسیلہ) میں خدا کے سامنے راست باز ہوں (رومیوں 10:5)۔

سوال نمبر ٤٤۔ آپ خدا کے سامنے کس طرح راست باز ٹھہرتےہیں؟

جواب۔ صرف خداوند یسوع مسیح پر حقیقی ایمان رکھنے سے۔

سوال نمبر ٤٥۔ صرف ایمان سے راستباز ٹھہرنے کا کیا مطلب ہے؟

جواب۔ کہ خدا صرف مسیح کے کامل کفارہ اور راست بازی کو میرے نام پر منسوب کرتا ہے اور مجھے میرے سارے گناہوں کی معافی عطا کرتا ہے اور ہمیشہ کی زندگی کا وارث بناتا ہے۔ لیکن ایمان ہی صرف ایک وسیلہ ہے جس کے ذریعے ہم مسیح کی راست بازی حاصل کرتے ہیں۔ ایمان کے بغیر کوئی اور طریقہ نہیں۔

سوال نمبر ٤٦۔ لیکن ہمارے نیک کام کیوں خدا کے سامنے ہماری پوری راست بازی یا جزوی طور پر اِس کا حصہ نہیں بن سکتے ؟

جواب۔ کیونکہ اِس زندگی میں ہمارے سب سے اچھے کام بھی نامکمل اور گناہ آلودہ ہوتے ہیں۔

سوال نمبر ٤٧۔ کیا آپ کو نیک کاموں کا کچھ فائدہ نہیں ہوتا اگرچہ یہ خدا کی مرضی ہے کہ اُن کا اجر اِس زندگی اور آنے والی زندگی میں دے؟

جواب۔ اجر کسی خوبی کی وجہ سے نہیں ملتا بلکہ خدا کے فضل سے۔

سوال نمبر ٤٨۔ ہماری زندگی میں یہ ایمان کون پیدا کرتا ہے؟

جواب۔ خدائے روح القدس۔

سوال نمبر ٤٩۔ خدائے روح القدس ہماری زندگی میں یہ ایمان کن ذرائع سے پیدا کرتا ہے؟

جواب۔ کلام خدا سننے سے (رومیوں 14:10-17)۔

سوال نمبر ٥٠۔ وہ اس ایمان کیسے تقویت بخشتا ہے؟

جواب۔ کلام مقدس سننے اور ساکرامنٹوں میں شامل ہونے سے۔

سوال نمبر ٥١۔ ساکرامنٹ کیا ہیں؟

جواب۔ ساکرامنٹ ظاہری اور پاکیزہ نشان اور مہریں ہیں جو خدا کی طرف سے مقرر کئے گئے ہیں تاکہ وہ اُن کے استعمال کے ذریعے زیادہ بھرپور طریقے سے اِن کا بیان کرے اور کلام کے وعدہ یعنی مفت فضل کی مہر ہم پر لگائے۔وہ ہمیں گناہوں کی معافی اور ہمیشہ کی زندگی مسیح کی اُس قربانی کی وجہ سے دیتاہے جسے اُس نے صلیب پر پورا کیا۔

سوال نمبر ٥٢۔ نئے عہد نامہ کے مطابق خداوند یسوع مسیح نے کتنے ساکرامنٹ مقرر کئے ہیں؟

جواب۔ صرف دو۔ پاک بپتسمہ اور عشائے ربانی۔

سوال نمبر ٥٣۔ بپتسمہ میں ظاہری نشان کیا ہے؟

جواب: پانی، جس میں ہم باپ، بیٹے اور روح القدس کے نام سے بپتسمہ لیتے ہیں۔

سوال نمبر ٥٤۔ یہ کس چیز کی علامت اور مہر ہے؟

جواب۔ کہ میں یسوع مسیح کے خون اور روح سے دُھل گیا ہوں(پاک کیا گیا ہوں)۔

سوال نمبر ٥٥۔ خداوند یسوع نے کہاں یہ وعدہ کیا کہ جیسے ہم بپتسمہ کے پانی سے دھوئے جاتے ہیں ویسے ہی یقینی طور پر مسیح کے خون اور روح سے دُھل جاتے ہیں؟

جواب۔ بپتسمہ کی رسم کو مقرر کرتے وقت جس میں لکھا ہے، جو ایمان لائے اور بپتسمہ لے وہ نجات پائے گا اور جو ایمان نہ لائے وہ مجرم ٹھہرایا جائے گا۔

سوال نمبر ٥٦۔ کیا بچوں کو بھی بپتسمہ دینا چاہیے؟

جواب۔ جی ہاں، کیونکہ وہ بھی بڑوں کی طرح خُدا کے عہد اور اُس کی کلیسیا میں شامل ہیں۔

سوال نمبر ٥٧۔ عشائے ربانی کی ظاہری علامت کیا ہے؟

جواب۔ وہ توڑی ہوئی روٹی جو ہم کھاتے ہیں اور انڈیلا ہوا انگوروں کا شیرہ جو ہم پیتے ہیں، مسیح کے دُکھوں اور موت کی یادگاری میں۔

سوال نمبر ٥٨۔ یہ کس چیز کی علامت اور مہر ہے؟

جواب۔ کہ مسیح اپنے مصلوب بدن اور بہائے ہوئے خون کے ذریعے میری روح کو ہمیشہ کی زندگی کے لئےسیر اور آسودہ کرتا ہے۔

سوال نمنر ٥٩۔ کونسی جگہ مسیح نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ایمانداروں کی پرورش اِس طرح اپنا بدن کھلانے اور خون پلانے کے ذریعے سے کرے گا جس طرح وہ یقینی طور پر توڑی ہوئی روٹی کو کھاتے اور پیالے میں سے پیتے ہیں؟

جواب۔ عشائے ربانی کو مقرر کئے جانے کے وقت جس کو پولس رسول نے بھی بیان کیا ہے، کیونکہ یہ بات مجھے خداوند سے پہنچی اور میں نے تم کو بھی پہنچا دی کہ خداوند یسوع نے جس رات وہ پکڑوایا گیا روٹی لی۔ اور شکر کرکے توڑی اور کہا یہ میرا بدن ہے جو تمہارے لئے ہے۔ میری یادگاری کے واسطے یہی کیا کرو۔ اِسی طرح کھانے کے بعد پیالہ بھی لیا اور کہا یہ پیالہ میرے خون میں نیا عہد ہے۔ جب کبھی پیو میری یادگاری کے لئے یہی کیا کرو۔ کیونکہ جب کبھی تم یہ روٹی کھاتے اور اِس پیالے میں سے پیتے ہو تو خداوند کی موت کا اظہار کرتے ہو۔ جب تک وہ نہ آئے (1 کرنتھیوں 23:11-26 )۔

سوال نمبر ٦٠۔ کیا پھر روٹی اور شیرہ مسیح کا حقیقی گوشت اور خون بن جاتے ہیں؟

جواب۔ نہیں ۔ جس طرح بپتسمہ میں پانی مسیح کے خون میں تبدیل نہیں ہوجاتا اِسی طرح عشائے ربانی میں مقدس روٹی اور شیرہ مسیح کے بدن اور خون میں تبدیل نہیں ہوتے۔

سوال نمبر ٦١۔ عشائے ربانی میں شرکت کرنے سے پہلے مجھے کن باتوں کو آزما لینا چاہیے؟

جواب۔ یہ کہ مَیں اپنے گناہوں سے نفرت کروں اور خُدا کے سامنے عاجزی کروں۔ مَیں یقین رکھوں کہ مسیح کی وجہ سے میرے سب گناہ معاف ہو چکے ہیں۔میں آئندہ نیک زندگی گزارنے کا پختہ ارادہ رکھتا ہوں۔

سوال نمبر ٦٢۔ کیا اُن کو بھی عشائے ربانی میں شامل ہونے دینا چاہیے جو اپنے عمل اور اقرار سے بے ایمانی اور ناراستی کی زندگی بسر کرتے ہیں؟

جواب۔ نہیں۔ کیونکہ اِس طرح خدا کے عہد کی بے حرمتی ہوتی ہے اور اُس کا قہر ساری کلیسیا کے خلاف بھڑکتا ہے۔

سوال نمبر ٦٣۔ ایسے لوگوں کے ساتھ ہمیں کیسا برتاؤ کرنا چاہیے؟

جواب۔ مسیح کے حکم کے مطابق کہ،اگر تیرا بھائی تیرا گناہ کرے تو جا اور خلوت میں بات چیت کرکے اُسے سمجھا۔ اگر وہ تیری سنے تو تو نے اپنے بھائی کو پا لیا۔ اور اگر نہ سنے تو ایک دو آدمیوں کو اپنے ساتھ لے جا تاکہ ہر ایک بات دو تین گواہوں کی زبان سے ثابت ہو جائے۔ اگر وہ اُن کی سننے سے بھی انکار کرے تو کلیسیا سے کہہ اور اگر کلیسیا کی سننے سے بھی انکار کرے تو تو اُسے غیر قوم اور محصول لینے والے کے برابر جان (متی 15:18-17)۔

تیسرا حصہ۔ ہماری نجات کیلئے خدا کے احسان کی شکرگزاری

سوال نمبر ٦٤۔ چونکہ ہم اپنی کسی خوبی کے سبب نہیں بلکہ فضل سے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے بچائے گئے ہیں، ہم کیوں نیک کام کریں یاہمیں نیک کام کرنے کی ضرورت ہے؟

جواب۔ اس لیے نہیں کہ ہم اِن کے وسیلے سےآسمانی اجر کے مستحق بن جائیں (کیونکہ مسیح نے یہ کام پہلے ہی پورا کر دیا ہے)، بلکہ اس لیے کہ خُدا نے مجھے یہ حکم دیا ہے۔

سوال نمبر ٦٥۔ پھر آپ کے نیک اعمال کا کیا مقصد ہے؟

جواب۔تاکہ میں اِن کے ذریعے مسیح کے وسیلہ حاصل تمام فوائد کیلئے خدا کی شکرگزاری کروں اور وہ میرے وسیلے جلال پائے۔ اور ایمان کے ثمرات سے مجھے اُس کا کامل یقین ہو اور میرے پڑوسی اِن سے فائدہ اُٹھا کر مسیح کی طرف راغب ہوں۔

سوال نمبر ٦٦۔ کیا جو کوئی نیک اعمال نہیں کرتا وہ بھی نجات پائے گا؟

جواب۔ ہرگز نہیں، کیونکہ کلام میں لکھا ہے کہ کوئی ناپاک(بدکار) شخص،بت پرست،زناکار، چور،لالچی، شرابی، گالیاں بکنےوالا(بدگو، غیبت کرنے والا)، ڈاکو یا ایسے کام کرنے والے خدا کی بادشاہی کے وارث نہ ہوں گے (1 کرنتھیوں 9:6-10) جب تک کہ توبہ نہ کریں۔

سوال نمبر ٦٧۔ انسان کی توبہ کس بات پر مشتمل ہے؟

جواب۔ دل سے سچی توبہ، گناہ سے باز آنا اور پرہیز اور نیک اعمال کی خواہش اور اُنہیں سر انجام دینے میں۔

سوال نمبر ٦٨۔ نیک اعمال کیا ہیں؟

جواب۔ صرف وہی جو حقیقی ایمان سے صادر ہوتے ہیں اور خدا کی شریعت کے مطابق اور اُس کے جلال کے لئے کئے جاتے ہیں۔ اور وہ نہیں جو ہمارے اپنے خیال کے مطابق یا انسانی احکام کے مطابق ہوتے ہیں۔

سوال نمبر ٦٩۔ کیا وہ جو خدا کی طرف رجوع کرچکے ہیں اِن حکموں پر مکمل طور سے عمل کرسکتے ہیں؟

جواب۔ نہیں۔ یہاں تک کہ مقدس ترین ا شخاص نے بھی موجودہ زندگی میں اِس فرماں برداری کا تھوڑا سا آغاز کیا ہے۔اِس لئے اُن کی زندگی کا حقیقی مقصد یہ ہے کہ وہ نہ صرف کچھ بلکہ خدا کے تمام حکموں کے مطابق زندگی گزاریں اور روزانہ دعا کرتے ہیں کہ اِس میں ترقی کریں۔

سوال نمبر ٧٠۔ اِس کے لئے ہم کس سے دعا مانگیں؟

جواب۔ کسی مخلوق سے نہیں، بلکہ صرف خدا سے جو ہماری مدد کر سکتا ہے اور مسیح کی خاطر ہماری دعا سنتا ہے۔

سوال نمبر ٧١۔ ہمیں خدا سے کس کے نام میں دعا کرنی چاہیے؟

جواب۔ صرف مسیح کے نام میں (یوحنا 23:16)، نہ کہ کسی مقدس انسان کے نام میں۔

سوال نمبر ٧٢۔  ہمیں خدا سے کس چیز کے لیے دعا کرنی چاہیے؟

جواب۔ وہ سب چیزیں جو ہماری روح اور جسم کے لئے ضروری ہیں۔اور جن کا ذکر خداوند یسوع مسیح نے اپنی سکھائی ہوئی دعا میں کیا ہے.

سوال نمبر ٧٣۔ دعائے ربانی کیا ہے؟

جواب۔ اے ہمارے باپ تو جو آسمان پر ہے تیرا نام پاک مانا جائے۔ تیری بادشاہی آئے۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔ ہمارے روز کی روٹی آج ہمیں دے۔ اورجس طرح ہم نے اپنے قرض داروں کو معاف کیا ہے تو بھی ہمارے قرض ہمیں معاف کر۔اورہمیں آزمایش میں نہ لابلکہ برائی سے بچا۔ کیونکہ بادشاہی اور قدرت اور جلال ہمیشہ تیرے ہی ہیں۔ آمین۔

سوال نمبر ٧٤۔ آپ اس دعا میں خدا سے کیا درخواست کرتے ہیں؟

جواب۔ کہ تمام باتیں جو خدا کے جلال کے لئے ہیں، ان کی ترقی ہو اور جو کچھ اس کے ارادہ کے منافی ہو، وہ روک دیا جائے۔یہ کہ وہ میرے جسم کی تمام ضروریات پوری کرے اور میری روح کو ہر اُس برائی سے بچائے جو میری نجات کے لیے نقصان دہ ہو۔ آمین۔

Show Buttons
Hide Buttons