مصنف: رونالڈ ہینکو (تعلیم بہ مطابق دِین داری، صفحہ نمبر 191 اور 192)
ترجمہ کار: ارسلان الحق
بہت سے لوگ انجیل کو بلاوا کہنے کی بجائے پیشکش کہنے کو ترجیح دیتے ہیں جیسے یہ کوئی چیز ہو جو انسان کے سامنے رکھی جائے اور وہ چاہے تو قبول کرے یا نہ کرے۔یہ بات دلچسپ اور قابلِ غور ضرور ہے کہ بائبل مقدس انجیل کو بیان کرنے کے لئے لفظ پیشکش کا استعمال نہیں کرتی۔ ہمیں لفظ پیشکش پر اعتراض نہیں۔ کیونکہ اس کے پرانے مفہوم میں اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ انجیل میں مسیح کو ظاہر و آشکار کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر، ویسٹ منسٹر مفصل کیٹی کزم مسیح کی پیشکش کو یوں بیان کرتا ہے کہ یہ اس بات کی گواہی دینا ہے کہ جو کوئی اُس (یسوع مسیح) پر ایمان لائے گا وہ نجات پائے گا (ویسٹ منسٹر مفصل کیٹی کزم، سوال و جواب نمبر 63)۔
لیکن موجودہ دور میں پیشکش کا لفظ اس مفہوم میں استعمال کیا جاتا ہے کہ خدا تمام انسانوں سے محبت کرتا ہے اور ہر ایک کو نجات دینا چاہتا ہے، وہ انجیل کے ذریعے سب کی نجات کے لیے کوشش کرتا ہے اور گناہ گار کی نجات اُس کی اپنی مرضی (فیصلے) پر منحصر ہے کہ وہ اسے قبول کرے یا نہیں۔ ایسی تمام تعلیمات بائبل مقدس کے برخلاف ہیں۔
بائبل مقدس یہ تعلیم نہیں دیتی کہ خدا سب انسانوں سے محبت رکھتا ہے (زبور 5:11، یوحنا 1:13، رومیوں 13:9) نہ یہ کہ وہ سب کو نجات دینے کی کوشش کر رہا ہے (یسعیاہ 9:6-11، رومیوں 18:9، 2 کرنتھیوں 14:2-16)۔ یہ بات تو بالکل بھی نہیں سکھائی گئی کہ گناہ گاروں کو بچانے میں خدا کی کوشش اُن کی مرضی سے ناکام ہو سکتی ہے یا گویا وہ ہاتھ باندھ کر انتظار کرتا ہے کہ وہ اُس کی نجات کو قبول کریں (زبور 3:115، یوحنا 44:6، رومیوں 16:9، افسیوں 8:2-9)۔ ان ہی وجوہ کی بنا پر ہم انجیل کو پیشکش کہنے سے گریز کرتے ہیں۔
بلاوا پیشکش سے مختلف ہے۔ یہ ہمیں خدا کی حاکمیت یاد دِلاتا ہے۔ خدا بہ طور بادشاہ اپنے اختیار اور حاکمیت کے ساتھ گناہ گاروں کو بلاتا ہے کہ وہ توبہ کریں اور ایمان لائیں۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اپنے حاکمانہ بلاوے سے بعض کو حقیقی نجات کی طرف لاتا ہے۔ جب ہمیں یاد رہتا ہے کہ بلانے والا خود خدا ہے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں ہوتا۔وہ ہی، جو چیزیں نہیں ہیں اُن کو اِس طرح بلا لیتا ہے کہ گویا وہ ہیں (رومیوں 17:4)۔
یہ الٰہی بلاوا انجیل کی منادی میں سنائی دیتا ہے۔ یہ بلاوا نجات کے لیے تب مؤثر ہوتا ہے جب روح القدس دل میں اندرونی طور پر کام کرتا ہے۔تاکہ بعض لوگ نہ صرف اسے سنیں بلکہ اس کی فرماںبرداری بھی کریں۔ روح القدس کے کام میں یہ خدا ہی ہے جو کہ بلاتا ہے نہ کہ صرف منادی کرنے والا۔ منادی کرنے والا تو محض ایک ذریعہ ہوتا ہے۔
اِسی لیے جب بے دین لوگ اس بلاوے کو رد کرتے ہیں تو وہ نافرمانی کی سزا کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ اپنے بے اعتقادی سے وہ کسی انسان کو نہیں بلکہ زندہ خدا کو ردّ کرتے ہیں جو اپنے اکلوتے بیٹے کے ذریعے کلام کرتا ہے۔ یہ بہت سنگین بات ہے۔
اِسی لیے منادی کرنے والے کو صرف اور صرف کلامِ مقدس پیش کرنا چاہیے۔ سامعین صرف خدا کا کلام سنیں نہ کہ واعظ کے خیالات، فلسفے یا سیاسی تبصرے وغیرہ۔ اُسے خاص طور پر محتاط رہنا چاہیے کہ کہیں وہ خدا کے حاکمانہ بلاوے کو کسی غیر ضروری مِنت، درخواست یا زبردستی قائل کرنے والے طریقوں سے مبہم اور کمزور نہ کر دے اور ایسا تاثر نہ دے کہ گویا خدا گناہ گار کی مرضی کا محتاج ہے (اور گناہ گار سے درخواست کررہا ہے)۔
انجیل کی منادی میں یہ بات بالکل واضح ہونی چاہیے کہ خدا اپنی حاکمانہ خودمختاری سے گناہ گاروں کو حکم دیتا ہے کہ وہ توبہ کریں اور ایمان لائیں اور یہ کہ وہ قادرِ مطلق، آسمان و زمین کے منصف کی فرمانبرداری کریں اور وہ نافرمانی کی سزا دے گا۔ ایسی منادی کے ذریعے گناہ گار نجات پاتے ہیں اور اِس سے خدا کا جلال ظاہر ہوتا ہے۔